Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر


پری بیٹھی ہوئی دادی جان کے سر میں مساج کر رہی تھی اور ساتھ ہی باتیں بھی کرتی جا رہی تھی۔ دادی کا موڈ آج کل بہت اچھا تھا۔

”صباحت بے وقوف سجھتی ہے میں عائزہ کے ہونے والے سسرال کو پسند نہیں کرتی  میں اس رشتے سے خوش نہیں ہوں مگر بھلا یہ کیسے ممکن ہے  دادی کو اپنی پوتی کی خوشیوں سے جلن ہو… وہ اس کا گھر بسا ہوا نہیں دیکھنا چاہے گی؟ جیسی خود ہے دوسروں کی خوشیوں سے حسد کرنے والی ایسا ہی مجھ کو سمجھتی ہے  کم عقل“ وہ بڑبڑا رہی تھیں۔

”مما سمجھنے میں غلطی کرتی ہیں ورنہ وہ دل کی بری نہیں ہیں۔“

”تم اس کو اچھا سمجھتی ہو  یہ اچھی بات ہے۔“ اس لمحے عادلہ  عائزہ اور ان کے پیچھے کے طغرل وہاں چلے آئے تھے۔

”یہ کہاں جانے کی تیاری ہے؟“ وہ ان کو تیار دیکھ کر استفسار کرنے لگیں۔
(جاری ہے)

”کل تمہارے سسرال والے آئیں گے  تم کیوں گھر سے نکل رہی ہو؟“ وہ عائزہ کو گھور کر بولیں جو عادلہ سے زیادہ تیاری میں تھی۔

”دادی جان! وہ تو کل آئیں گے آج نہیں۔“ عائزہ مسکرا کر کہنے لگی اور اس کی بے باکی پر اماں کو دھچکا لگا تھا۔

”میں کہتی ہوں کچھ تو شرم کر لڑکی! بھائی اور بڑی بہنوں کے سامنے کس بے حیائی سے کہہ رہی ہے  شرم بالکل ہی ختم ہو گئی کیا؟“

”دادی جان! آپ بھی کس دنیا میں رہ رہی ہیں۔ اب ایسی باتوں پر کون شرماتا ہے اور پھر شرمانے کی ضرورت بھی کیا ہے؟“ عادلہ شانے اچکا کر گویا ہوئی۔

”اچھا…! یہ کوئی شرم کی بات ہی نہیں ہے؟ ہاں بھئی نئے دور کے بے حیاء لوگ ہو تم… تم کو شرم و حیاء سے کیا واسطہ۔“

”دادو! آپ بھی چلیں  آپ کو شاپنگ کرنی چاہئے  صباحت آنٹی بھی آ رہی ہیں  سب ساتھ چلیں گے مزا آئے گا۔“ طغرل نے آگے بڑھ کر ان سے کہا۔

”نہیں بھئی مجھ کو تو معاف ہی رکھو  مجھے بلاوجہ پیسے پھینکنے کی عادت نہیں ہے  کپڑوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے میرے پاس  وہ مجھ سے استعمال نہیں ہو رہے ہیں پھر نئے لا کر کیا کروں گی۔
“ انہوں نے نرمی سے انکار کر دیا تھا مگر طغرل نہیں مانا تھا۔

”دادو! آپ کو چلنا ہی ہوگا بس!“

”نہیں میرے بچے! ہر چیز صرف ایک حد میں رہ کر استعمال کرنی چاہئے اگر بے جا اسراف کیا اور فضول خرچی میں پیسہ ضائع کر دیا تو آگے جا کر قبر میں  حشر میں جواب دینا ہوگا  اللہ وہاں کے حساب سے بچائے۔“

”دادی جان! آپ ایسی باتیں نہ کیا کریں  مجھے ڈر لگتا ہے۔
“ عادلہ نے منہ بنا کر کہا تھا۔

”حقیقت تو یہی ہے جس سے تم لوگ فرار حاصل کرنا چاہتے ہو۔ قبر کی تیاری بھی دنیا میں ہی کی جاتی ہے۔ خود سوچو  اس چھوٹے سے کام کی تم لوگ کتنی تیاریوں میں لگے ہوئے ہو پھر… آخرت کی تیاری تو بہت ضروری ہے۔ ڈرو نیک عمل کرنے کی کوشش کرو  میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔“ ان کے چہرے دیکھ کر وہ مسکرا کر گویا ہوئیں۔

”پری! تم چلی جاؤ  تمہیں اپنے لئے شاپنگ کئے ہوئے وقت ہو گیا ہے۔“

”میرے پاس کپڑے ہیں دادی جان! مجھے ضرورت نہیں ہے۔“ اس نے فوراً انکار کر دیا تھا۔ طغرل نے ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی تھی۔ اس دن سے ان کے درمیان بات چیت بند ہو چکی تھی۔ وہ تینوں باہر نکل آئے تھے کسی نے پری سے خود پوچھنا گوارا نہیں کیا تھا۔

”دادی کے ساتھ رہ کر پری بھی ان ہی کی طرح ہو گئی ہے  اسے کسی چیز سے بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے  ہر وقت دادی کے کان بھرنے میں لگی رہتی ہے۔
“ باہر نکل کر وہ باتیں کرنے لگی تھیں۔

”آپ نے دیکھا طغرل بھائی! پری نے کس طرح دادی کو مٹھی میں کیا ہوا ہے؟ وہ ان کو اپنے قابو میں کرنے کیلئے ایسی بنتی ہے ورنہ ہمیں معلوم ہے وہ اپنی نانو کے ہاں جا کر خوب شاپنگ کرتی ہے۔“

”اور اس کی نانو وہ تمام سامان یہ کہہ کر بھجواتی ہیں اس کو کہ مما وہ چیزیں اس کیلئے فلاں شہر  فلاں ملک سے لائی ہیں۔
“ عادلہ نے عائزہ کی بات کو اور بڑھا کر پیش کیا تھا۔

”وہ آپ لوگوں کو چیٹ کر رہی ہے آپ بھی اس کو چیٹ کر دیں۔“ طغرل نے کوریڈور سے نکلتے ہوئے مشورہ دیا۔ ”آپ دونوں بھی اس کی طرح دادی سے دوستی کر لیں۔“

###

یوں بات نہیں بنتی بگڑتی ہے

لب سی کر

دور رہ کر

کب زندگی سنورتی ہے

انا کی بھینٹ خواب مت دو

آؤ!

سنو!

مانا کہ محبت دوریوں سے نکھرتی ہے

تو خوشنما خوابوں کی

اک اک ہستی بکھرتی ہے

اک بوجھ بن کر

ذات کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے

وقت گزارتی ہے

یوں پھر زندگی بسر کرتی ہے

صفدر جمال عشرت جہاں کی مہربانی کے سبب مثنیٰ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
وہ بہت شرمسار اور رنجیدہ تھے  مثنیٰ کی ایک ہفتے کی دوری نے انہیں احساس دلایا کہ وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے  وہ ان کے دل کی دھڑکنوں  آتی جاتی سانسوں اور رگوں میں بہتے خون کی روانی کی طرح ضروری تھیں  اپنی تمام بے نیازی و خاموشی کے باوجود۔

”پلیز مثنیٰ! میں نے آپ کو اس لئے نہیں بتایا تھا کہ برداشت نہ کر پاؤ گی  سعود نے کہا تھا وہ خود ہی آکر آپ کو راضی کرے گا اور اس وقت مجھے نامعلوم کیا ہوا تھا جو میں یہ سب بتا بیٹھا جو میری زندگی میں اتنا بڑا خلاء لے آیا کہ آپ ایک ہفتہ مجھ سے دور رہیں اور مجھے لگا گویا زندگی روٹھ گئی ہو۔
“ صفدر جمال جیسا نک سک سے تیار رہنے والا بندہ بھی اس وقت مثنیٰ کی طرح خستہ حالی کا شکار تھا۔ بڑھتی ہوئی شیو  سرخ بے خوابی کا اظہار کرتی آنکھیں کہہ رہی تھی کہ ان سے دو رہ کر وہ کسی پل سکون سے نہیں رہے ہیں۔

مجھے لفظوں کے سحر میں جکڑنے کی کوشش مت کرنا صفدر! عرصہ ہوا میں ان کے سحر سے نکل چکی ہوں  یہ خوابوں کی باتیں ہیں اور میں خوابوں کے جہاں میں رہنے کی عمر سے نکل آئی ہوں۔

”میں سچ کہہ رہا ہوں  تمہارے بغیر میں نہیں رہ سکتا  میرے جذبات سمجھنے کی کوشش کرو یار!“ وہ اٹھ کر ان کے قدموں میں بیٹھ گئے تھے۔

”پلیز صفدر! میں اب ان بہلاوؤں میں آنے والی نہیں ہوں  اگر عورت کا اعتبار ٹوٹ جائے تو جڑ نہیں سکتا۔“ ان کا لہجہ سرد و سپاٹ تھا۔

”اچھا! اگر سچ بتاؤں تو سچ سن کر بھی نہیں معاف کریں گی؟“

”اب کوئی نیا گیم کھیلنا چاہتے ہیں؟“

”نہیں! زندگی بچانے کیلئے  اپنے گھر  اپنے رشتے بچانے کیلئے میں آپ کو حقیقت بتاتا ہوں کہ کیوں میں امریکہ گیا اور کیوں میں اس شادی پر راضی ہوا ہوں۔

ان کو محسوس ہو گیا تھا وہ پتھر بن گئی ہیں  ان کی کوئی بات ان پر اثر انداز نہیں ہو رہی  وہ اسی طرح لاتعلق انداز میں بیٹھی رہی تھیں۔ انہوں نے پھر سچ بولنا ہی بہتر جانا تھا۔

”کیسی حقیقت؟“ ان کا لہجہ ابھی بھی اعتماد سے عاری تھا۔

”سعود نے وہاں خود کشی کر لی تھی۔“

”کیا! یہ کب کی بات ہے؟“ وہ تمام سرد مہری و بے رخی بھول کر شدید حیرت سے متوجہ ہوئی تھیں۔

”جس دن میں یہاں سے گیا تھا  اسی دن اس کے دوست کی فون کال آئی تھی  ہمارے انکار پر اس نے ہاتھ کی رگ کاٹ لی تھی  اس کے دوستوں نے فوراً اس کو ہسپتال پہنچایا لیکن خون زیادہ بہنے کی وجہ سے اس کی حالت خطرے میں تھی  وہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں زندگی و موت سے لڑ رہا تھا  میرے جانے کے ایک دن بعد اس کو ہوش آیا تھا اور ہوش میں آتے ہی اس نے کہا تھا اگر اس کو پوجا سے شادی کی اجازت نہیں ملی تو وہ دوبارہ خود کشی کر لے گا  اس کو پوجا کے بغیر زندہ نہیں رہنا ہے۔

”اف خدایا! وہ اس حد تک جا چکا تھا کہ اس کو نہ اپنی زندگی کی پروا تھی اور نہ ہماری…؟“

”بس… مجھے یہی راستہ دکھائی دیا کہ اس کی بات مان لی جائے  اس کی آنکھوں میں ایک ایسا جنون تھا جو نظر آ رہا تھا وہ پوجا کو پانے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے… کچھ بھی…!“

مثنیٰ کا چہرہ دھواں دھواں سا ہو گیا تھا۔ وہ کیا سوچ رہی تھیں اور کیا نکلا؟ ان کی تمام ناراضگی  خفگی غلط فہمیاں کچے مٹی کے گھروندے کی مانند بکھرتی چلی گئی تھیں۔

###

”سنو!“ وہ بالکونی پر لگے پھولوں کو صاف کر رہی تھی جب طغرل نے وہاں آ کر کہا تھا۔ اس نے مصرف سے انداز میں اس پر ایک نگاہ ڈالی۔

”جی فرمایئے؟“

”تم شاپنگ کرنے کیوں نہیں گئی تھیں؟“

”مجھے شوق نہیں ہے۔“ بے پروا انداز میں کہا۔

”شوق نہیں ہے یا خوشی نہیں ہے؟“ وہ سینے پر بازو لپیٹے طنز سے گویا ہوا۔

”خوشی نہیں ہے… کیا مطلب…؟“ کانٹ چھانٹ کرتے اس کے ہاتھ رک گئے تھے  وہ حیرانی سے بولی۔

”عائزہ کی منگنی ہو رہی ہے اس لئے۔“

”یہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟“

”جو میں محسوس کر رہا ہوں وہ ہی بتا رہا ہوں  تم اس کی منگنی سے خوشی نہیں ہو اگر خوش ہوتیں تو تیاریاں کرتیں خوب۔“

”اس میں خوش نہ ہونے کی کیا بات ہے اور میں ناخوش کیوں ہوں گی؟ آپ بلاوجہ کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟“

”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں  تم خوش نہیں ہو۔
“ وہ بضد تھا۔

”کیوں خوش نہیں ہوں میں…؟“ وہ چڑ کر گویا ہوئی۔

”’اس لئے کہ تم سے پہلے عائزہ کی منگنی ہو رہی ہے۔“ وہ سفاک لہجے میں کہہ رہا تھا اور وہ اس کی طرف حیرت سے دیکھنے لگی۔

”شرم نہیں آتی آپ کو طغرل بھائی اس طرح کی فضول بات کرتے ہوئے؟ مجھے شوق بھی نہیں ہے اور یہ آپ کیا بکواس کر رہے ہیں؟“ وہ شدید غصے میں تمام ادب و آداب بھول گئی تھی۔

”سچ بات پر اسی طرح غصہ آتا ہے۔“ وہ اس کے غصے سے ذرا بھی مرعوب نہ ہوا تھا۔ جب کہ اس کی‘ کی گئی بات نے پری کے پتنگے لگا دیئے تھے۔ غصے اور جھنجھلاہٹ سے اس کا برا حال تھا۔ کتنی گھٹیا سوچ تھی اس بندے کی۔

”عادلہ بھی تو عائزہ سے بڑی ہے اس نے تو اس بات کو اپنی ناک کا مسئلہ نہیں بنایا  خوب شاپنگ کی ہے  خوب تیاریاں کی ہیں۔“

”جب میرے پاس سب کچھ ہے تو پھر میں کیوں پپا پر بوجھ ڈالوں؟ ان کو تو پارٹیز میں کہیں نہ کہیں جانا ہوتا ہے اس لئے ان کو شاپنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور میں تو گھر میں ہی ہوتی ہوں۔
“ اس غصے پر قابو پاکر اس کو تحمل سے سمجھانا ضروری سمجھا ورنہ وہ جانتی تھی طغرل اسی طرح سے اس پر الزام لگاتا رہے گا اور اس دن سے جب ہٹ میں اس نے بیوقوف بنانے کیلئے ایک فضول سا قصہ سنا کر اسے حقیقت کا رنگ دینے کی کوشش کی تھی اور وہ بات کسی طرح ماننے کی نہ تھی۔ وہ کسی خواب… یاپھر نشے کی حالت کا شاخسانہ ہو سکتا تھا اور اس نے کہا تھا حقیقت سے اس بات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
وہ اس وقت نشے میں ہوگا اور یہ بات اسے بہت بری لگی تھی۔ وہ اس سے بات کرنا چھوڑ چکا تھا پھر آج اس نے بات کی بھی تو فضول اور بکواس!

”اچھا میں سمجھا کسی کمپلیکس کا شکار ہو رہی ہو تو میں تیار ہوں یہ قربانی دینے کیلئے۔“ وہ اس کی طرف دیکھ کر ذومعنی لہجے میں بولا۔

”کیا… کیا کہا آپ نے…؟“ وہ غصے سے آگے بڑھی تھی فرش پر پانی پڑا ہوا تھا۔ وہ اتنا توازن نہ برقرار رکھ سکی اور پھسلتی ہوئی سیڑھیوں کی جانب گئی پھر فضاء میں اس کی چیخ گونج اٹھی تھی  وہ لڑھکتی ہوئی نیچے جا رہی تھی۔

   2
0 Comments